آئینہ خود بھی سنورتا تھا ہماری خاطر
ہم ترے واسطے تیار ہوا کرتے تھے
سلیم کوثر
اب جو لہر ہے پل بھر بعد نہیں ہوگی یعنی
اک دریا میں دوسری بار اترا نہیں جا سکتا
سلیم کوثر
ابھی حیرت زیادہ اور اجالا کم رہے گا
غزل میں اب کے بھی تیرا حوالہ کم رہے گا
سلیم کوثر
اہل خرد کو آج بھی اپنے یقین کے لیے
جس کی مثال ہی نہیں اس کی مثال چاہئے
سلیم کوثر
اے مرے چارہ گر ترے بس میں نہیں معاملہ
صورت حال کے لیے واقف حال چاہئے
سلیم کوثر
اجنبی حیران مت ہونا کہ در کھلتا نہیں
جو یہاں آباد ہیں ان پر بھی گھر کھلتا نہیں
سلیم کوثر
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
سلیم کوثر
بہت دنوں میں کہیں ہجر ماہ و سال کے بعد
رکا ہوا ہے زمانہ ترے وصال کے بعد
سلیم کوثر
بھلا وہ حسن کس کی دسترس میں آ سکا ہے
کہ ساری عمر بھی لکھیں مقالہ کم رہے گا
سلیم کوثر