وقت رک رک کے جنہیں دیکھتا رہتا ہے سلیمؔ
یہ کبھی وقت کی رفتار ہوا کرتے تھے
سلیم کوثر
وہ جن کے نقش قدم دیکھنے میں آتے ہیں
اب ایسے لوگ تو کم دیکھنے میں آتے ہیں
سلیم کوثر
یاد کا زخم بھی ہم تجھ کو نہیں دے سکتے
دیکھ کس عالم غربت میں ملے ہیں تجھ سے
سلیم کوثر
یہ آگ لگنے سے پہلے کی بازگشت ہے جو
بجھانے والوں کو اب تک دھواں بلاتا ہے
سلیم کوثر
یہ لوگ عشق میں سچے نہیں ہیں ورنہ ہجر
نہ ابتدا نہ کہیں انتہا میں آتا ہے
سلیم کوثر
زوروں پہ سلیمؔ اب کے ہے نفرت کا بہاؤ
جو بچ کے نکل آئے گا تیراک وہی ہے
سلیم کوثر
ایک طرف ترے حسن کی حیرت ایک طرف دنیا
اور دنیا میں دیر تلک ٹھہرا نہیں جا سکتا
سلیم کوثر
اب جو لہر ہے پل بھر بعد نہیں ہوگی یعنی
اک دریا میں دوسری بار اترا نہیں جا سکتا
سلیم کوثر
ابھی حیرت زیادہ اور اجالا کم رہے گا
غزل میں اب کے بھی تیرا حوالہ کم رہے گا
سلیم کوثر