کچھ بھی تھا سچ کے طرف دار ہوا کرتے تھے
تم کبھی صاحب کردار ہوا کرتے تھے
سنتے ہیں ایسا زمانہ بھی یہاں گزرا ہے
حق انہیں ملتا جو حق دار ہوا کرتے تھے
تجھ کو بھی زعم سا رہتا تھا مسیحائی کا
اور ہم بھی ترے بیمار ہوا کرتے تھے
اک نظر روز کہیں جال بچھائے رکھتی
اور ہم روز گرفتار ہوا کرتے تھے
ہم کو معلوم تھا آنا تو نہیں تجھ کو مگر
تیرے آنے کے تو آثار ہوا کرتے تھے
عشق کرتے تھے فقط پاس وفا رکھنے کو
لوگ سچ مچ کے وفادار ہوا کرتے تھے
آئینہ خود بھی سنورتا تھا ہماری خاطر
ہم ترے واسطے تیار ہوا کرتے تھے
ہم گل خواب سجاتے تھے دکان دل میں
اور پھر خود ہی خریدار ہوا کرتے تھے
کوچۂ میرؔ کی جانب نکل آتے تھے سبھی
وہ جو غالبؔ کے طرف دار ہوا کرتے تھے
جن سے آوارگئ شب کا بھرم تھا وہ لوگ
اس بھرے شہر میں دو چار ہوا کرتے تھے
یہ جو زنداں میں تمہیں سائے نظر آتے ہیں
یہ کبھی رونق دربار ہوا کرتے تھے
میں سر دشت وفا اب ہوں اکیلا ورنہ
میرے ہم راہ مرے یار ہوا کرتے تھے
وقت رک رک کے جنہیں دیکھتا رہتا ہے سلیمؔ
یہ کبھی وقت کی رفتار ہوا کرتے تھے
غزل
کچھ بھی تھا سچ کے طرف دار ہوا کرتے تھے
سلیم کوثر