اجنبی حیران مت ہونا کہ در کھلتا نہیں
جو یہاں آباد ہیں ان پر بھی گھر کھلتا نہیں
راستے کب گرد ہو جاتے ہیں اور منزل سراب
ہر مسافر پر طلسم رہ گزر کھلتا نہیں
دیکھنے والے تغافل کار فرما ہے ابھی
وہ دریچہ کھل گیا حسن نظر کھلتا نہیں
جانے کیوں تیری طرف سے دل کو دھڑکا ہی رہا
اس تکلف سے تو کوئی نامہ بر کھلتا نہیں
انتظار اور دستکوں کے درمیاں کٹتی ہے عمر
اتنی آسانی سے تو باب ہنر کھلتا نہیں
ہم بھی اس کے ساتھ گردش میں ہیں برسوں سے سلیمؔ
جو ستارہ ساتھ رہتا ہے مگر کھلتا نہیں
غزل
اجنبی حیران مت ہونا کہ در کھلتا نہیں
سلیم کوثر