یہ لوگ جس سے اب انکار کرنا چاہتے ہیں
وہ گفتگو در و دیوار کرنا چاہتے ہیں
ہمیں خبر ہے کہ گزرے گا ایک سیل فنا
سو ہم تمہیں بھی خبردار کرنا چاہتے ہیں
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
یہاں تک آ تو گئے آپ کی محبت میں
اب اور کتنا گنہ گار کرنا چاہتے ہیں
گل امید فروزاں رہے تری خوشبو
کہ لوگ اسے بھی گرفتار کرنا چاہتے ہیں
اٹھائے پھرتے ہیں کب سے عذاب در بدری
اب اس کو وقف رہ یار کرنا چاہتے ہیں
جہاں کہانی میں قاتل بری ہوا ہے وہاں
ہم اک گواہ کا کردار کرنا چاہتے ہیں
وہ ہم ہیں جو تری آواز سن کے تیرے ہوئے
وہ اور ہیں کہ جو دیدار کرنا چاہتے ہیں
غزل
یہ لوگ جس سے اب انکار کرنا چاہتے ہیں
سلیم کوثر