دیکھتے کچھ ہیں دکھاتے ہمیں کچھ ہیں کہ یہاں
کوئی رشتہ ہی نہیں خواب کا تعبیر کے ساتھ
سلیم کوثر
آئینہ خود بھی سنورتا تھا ہماری خاطر
ہم ترے واسطے تیار ہوا کرتے تھے
سلیم کوثر
بھلا وہ حسن کس کی دسترس میں آ سکا ہے
کہ ساری عمر بھی لکھیں مقالہ کم رہے گا
سلیم کوثر
بہت دنوں میں کہیں ہجر ماہ و سال کے بعد
رکا ہوا ہے زمانہ ترے وصال کے بعد
سلیم کوثر
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
سلیم کوثر
اجنبی حیران مت ہونا کہ در کھلتا نہیں
جو یہاں آباد ہیں ان پر بھی گھر کھلتا نہیں
سلیم کوثر
اے مرے چارہ گر ترے بس میں نہیں معاملہ
صورت حال کے لیے واقف حال چاہئے
سلیم کوثر
اہل خرد کو آج بھی اپنے یقین کے لیے
جس کی مثال ہی نہیں اس کی مثال چاہئے
سلیم کوثر
ابھی حیرت زیادہ اور اجالا کم رہے گا
غزل میں اب کے بھی تیرا حوالہ کم رہے گا
سلیم کوثر