آج کی رات وہ آئے ہیں بڑی دیر کے بعد
آج کی رات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
سیف الدین سیف
آپ ٹھہرے ہیں تو ٹھہرا ہے نظام عالم
آپ گزرے ہیں تو اک موج رواں گزری ہے
سیف الدین سیف
ایسے لمحے بھی گزارے ہیں تری فرقت میں
جب تری یاد بھی اس دل پہ گراں گزری ہے
سیف الدین سیف
اپنی وسعت میں کھو چکا ہوں میں
راہ دکھلا سکو تو آ جاؤ
سیف الدین سیف
بولے وہ کچھ ایسی بے رخی سے
دل ہی میں رہا سوال اپنا
سیف الدین سیف
چلو میکدے میں بسیرا ہی کر لو
نہ آنا پڑے گا نہ جانا پڑے گا
سیف الدین سیف
دل نے پایا قرار پہلو میں
گردش کائنات ختم ہوئی
سیف الدین سیف
دل ناداں تری حالت کیا ہے
تو نہ اپنوں میں نہ بیگانوں میں
سیف الدین سیف
دل ویراں کو دیکھتے کیا ہو
یہ وہی آرزو کی بستی ہے
سیف الدین سیف