اب وہ سودا نہیں دیوانوں میں
خاک اڑتی ہے بیابانوں میں
غم دوراں کو گلہ ہے مجھ سے
تو ہی تو ہے مرے افسانوں میں
دل ناداں تری حالت کیا ہے
تو نہ اپنوں میں نہ بیگانوں میں
بجھ گئی شمع سحر سے پہلے
آگ جلتی رہی پروانوں میں
دل نے چھوڑا نہ امیدوں کا خیال
پھول کھلتے رہے ویرانوں میں
سیفؔ پہلو میں یہ آہٹ غم کی
کون روتا ہے بیابانوں میں
غزل
اب وہ سودا نہیں دیوانوں میں
سیف الدین سیف