EN हिंदी
گرچہ سو بار غم ہجر سے جاں گزری ہے | شیح شیری
garche sau bar gham-e-hijr se jaan guzri hai

غزل

گرچہ سو بار غم ہجر سے جاں گزری ہے

سیف الدین سیف

;

گرچہ سو بار غم ہجر سے جاں گزری ہے
پھر بھی جو دل پہ گزرتی تھی کہاں گزری ہے

آپ ٹھہرے ہیں تو ٹھہرا ہے نظام عالم
آپ گزرے ہیں تو اک موج رواں گزری ہے

ہوش میں آئے تو بتلائے ترا دیوانہ
دن گزارا ہے کہاں رات کہاں گزری ہے

ایسے لمحے بھی گزارے ہیں تری فرقت میں
جب تری یاد بھی اس دل پہ گراں گزری ہے

حشر کے بعد بھی دیوانے ترے پوچھتے ہیں
وہ قیامت جو گزرنی تھی کہاں گزری ہے

زندگی سیفؔ لیے قافلہ ارمانوں کا
موت کی رات سے بے نام و نشاں گزری ہے