چاندنی رات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
لب پہ اک بات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
جھوم کر آج یہ شب رنگ لٹیں بکھرا دے
دیکھ برسات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
دل مجروح کی اجڑی ہوئی خاموشی سے
بوئے نغمات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
آج کی رات وہ آئے ہیں بڑی دیر کے بعد
آج کی رات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
آہ تسکین بھی اب سیفؔ شب ہجراں میں
اکثر اوقات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
غزل
چاندنی رات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
سیف الدین سیف