EN हिंदी
سعید احمد شیاری | شیح شیری

سعید احمد شیر

9 شیر

ہم بھی اسی کے ساتھ گئے ہوش سے سعیدؔ
لمحہ جو قید وقت سے باہر چلا گیا

سعید احمد




جل تھل کا خواب تھا کہ کنارے ڈبو گیا
تنہا کنول بھی جھیل سے باہر نکل پڑا

سعید احمد




جو ترے خطۂ بے آب کی خواہش نہ بنا
کلبلاتا ہے وہ دریا کسی کہسار میں گم

سعید احمد




خشک پتوں میں کسی یاد کا شعلہ ہے سعیدؔ
میں بجھاتا ہوں مگر آگ بھڑک جاتی ہے

سعید احمد




کچھ لوگ ابتدائے رفاقت سے قبل ہی
آئندہ کے ہر ایک گزشتہ تک آ گئے

سعید احمد




مرا وجود حوالہ ترا ہوا آخر
تو کھا گیا نا مجھے تو مرے سوال قدیم

سعید احمد




سب کرشمے تعلقات کے ہیں
خاک اڑتی ہے خاکدان میں کیا

سعید احمد




شورش وقت ہوئی وقت کی رفتار میں گم
دن گزرتے ہیں ترے خواب کے آثار میں گم

سعید احمد




اس دن سے پانیوں کی طرح بہہ رہے ہیں ہم
جس دن سے پتھروں کا ارادہ سمجھ لیا

سعید احمد