کھلتا ہے یوں ہوا کا دریچہ سمجھ لیا
خود کو شجر پہ آخری پتا سمجھ لیا
بھٹکے ہوئے خیال کی صورت اسے ملے
بھولا ہوا امید کا رستا سمجھ لیا
اک یہ سوال حل نہیں ہوتا وصال میں
کتنا قریب آ گئے کتنا سمجھ لیا
ملتی رہے گی خواب کی سوغات خواب میں
ہوتا رہے گا طے سفر اپنا سمجھ لیا
اٹھنے لگی ہے شام کی دیوار پھر کہیں
گرنے لگا ہے دھوپ کا خیمہ سمجھ لیا
اپنا مرا قدیم مکانوں میں ہے کوئی
ایک اس سبب سے دل کا اجڑنا سمجھ لیا
اس دن سے پانیوں کی طرح بہہ رہے ہیں ہم
جس دن سے پتھروں کا ارادہ سمجھ لیا
غزل
کھلتا ہے یوں ہوا کا دریچہ سمجھ لیا
سعید احمد