آوازوں کی بھیڑ میں اتنے شور شرابے میں
اپنی بھی اک رائے رکھنا کتنا مشکل ہے
نسیم سحر
بہ نام امن و اماں کون مارا جائے گا
نہ جانے آج یہاں کون مارا جائے گا
نسیم سحر
دیے اب شہر میں روشن نہیں ہیں
ہوا کی حکمرانی ہو گئی کیا
نسیم سحر
حدود وقت کے دروازے منتظر ہیں نسیمؔ
کہ تو یہ فاصلے کر کے عبور دستک دے
نسیم سحر
جو بات کی تھی ہوا میں بکھرنے والی تھی
جو خط لکھا تھا وہ پرزوں میں بٹنے والا تھا
نسیم سحر
جو یاد یار سے گفت و شنید کر لی ہے
تو گویا پھول سے خوشبو کشید کر لی ہے
نسیم سحر
کبھی تو سرد لگا دوپہر کا سورج بھی
کبھی بدن کے لیے اک کرن زیادہ ہوئی
نسیم سحر
لفظ بھی جس عہد میں کھو بیٹھے اپنا اعتبار
خامشی کو اس میں کتنا معتبر میں نے کیا
نسیم سحر
سفر کا مرحلۂ سخت ہی غنیمت تھا
ٹھہر گئے تو بدن کی تھکن زیادہ ہوئی
نسیم سحر