EN हिंदी
نجم الثاقب شیاری | شیح شیری

نجم الثاقب شیر

12 شیر

بدن کو جاں سے جدا ہو کے زندہ رہنا ہے
یہ فیصلہ ہے فنا ہو کے زندہ رہنا ہے

نجم الثاقب




دل کو آج تسلی میں نے دے ڈالی
وہ سچا تھا اس کے وعدے جھوٹے تھے

نجم الثاقب




دکھ بھرا شہر کا منظر کبھی تبدیل بھی ہو
درد کو حد سے گزرتے کوئی کب تک دیکھے

نجم الثاقب




ہنوز رات ہے جلنا پڑے گا اس کو بھی
کہ میرے ساتھ پگھلنا پڑے گا اس کو بھی

نجم الثاقب




کبھی نہ ٹوٹنے والا حصار بن جاؤں
وہ میری ذات میں رہنے کا فیصلہ تو کرے

نجم الثاقب




کون ہے جو ہر لمحہ صورتیں بدلتا ہے
میں کسے سمجھنے کے مرحلوں میں زندہ ہوں

نجم الثاقب




میں ہی ٹوٹ کے بکھرا اور نہ رویا وہ
اب کے ہجر کے موسم کتنے جھوٹے تھے

نجم الثاقب




مرے ہاتھ میں ترے نام کی وہ لکیر مٹتی چلی گئی
مرے چارہ گر مرے درد کی ہی وضاحتوں میں لگے رہے

نجم الثاقب




پھر ایک بار لڑائی تھی اپنی سورج سے
ہم آئینوں کی طرح پھر یہاں وہاں ٹوٹے

نجم الثاقب