بچپن میں آکاش کو چھوتا سا لگتا تھا
اس پیپل کی شاخیں اب کتنی نیچی ہیں
مظفر حنفی
جب سرابوں پہ قناعت کا سلیقہ آیا
ریت کو ہاتھ لگایا تو وہیں پانی تھی
مظفر حنفی
کانٹوں میں رکھ کے پھول ہوا میں اڑا کے خاک
کرتا ہے سو طرح سے اشارے مجھے کوئی
مظفر حنفی
کھلتے ہیں دل میں پھول تری یاد کے طفیل
آتش کدہ تو دیر ہوئی سرد ہو گیا
مظفر حنفی
میرے تیکھے شعر کی قیمت دکھتی رگ پر کاری چوٹ
چکنی چپڑی غزلیں بے شک آپ خریدیں سونے سے
مظفر حنفی
مجھ سے مت بولو میں آج بھرا بیٹھا ہوں
سگریٹ کے دونوں پیکٹ بالکل خالی ہیں
مظفر حنفی
روتی ہوئی ایک بھیڑ مرے گرد کھڑی تھی
شاید یہ تماشہ مرے ہنسنے کے لیے تھا
مظفر حنفی
شکست کھا چکے ہیں ہم مگر عزیز فاتحو
ہمارے قد سے کم نہ ہو فراز دار دیکھنا
مظفر حنفی
سوائے میرے کسی کو جلنے کا ہوش کب تھا
چراغ کی لو بلند تھی اور رات کم تھی
مظفر حنفی