دریائے شب کے پار اتارے مجھے کوئی
تنہائی ڈس رہی ہے پکارے مجھے کوئی
گو جانتا ہوں سب ہی نشانے پہ ہیں یہاں
پاگل ہوں چاہتا ہوں نہ مارے مجھے کوئی
مٹھی صدف نے بھینچ رکھی ہے کہ چھو کے دیکھ
موتی پکارتا ہے ابھارے مجھے کوئی
کانٹوں میں رکھ کے پھول ہوا میں اڑا کے خاک
کرتا ہے سو طرح سے اشارے مجھے کوئی
اب تک تو خودکشی کا ارادہ نہیں کیا
ملتا ہے کیوں ندی کے کنارے مجھے کوئی
بکھرا ہوا ہوں وقت کے شانے پہ گرد سا
اک زلف پر شکن ہوں سنوارے مجھے کوئی
غزل
دریائے شب کے پار اتارے مجھے کوئی
مظفر حنفی