فرق نہیں پڑتا ہم دیوانوں کے گھر میں ہونے سے
ویرانی امڈی پڑتی ہے گھر کے کونے کونے سے
اپنی اس کم ظرفی کا احساس کہاں لے جاؤں میں
سن رکھا تھا الجھن کچھ کم ہو جاتی ہے رونے سے
بعد از وقت پشیماں ہو کر زخم نہیں بھر سکتے تم
دامن کے دھبے البتہ مٹ سکتے ہیں دھونے سے
کانٹے بونے والے سچ مچ تو بھی کتنا بھولا ہے
جیسے راہی رک جائیں گے تیرے کانٹے بونے سے
میرے تیکھے شعر کی قیمت دکھتی رگ پر کاری چوٹ
چکنی چپڑی غزلیں بے شک آپ خریدیں سونے سے
آنکھوں میں یہ رات کٹے تو ٹھیک مظفرؔ حنفی جی
رہزن جھنجھلایا بیٹھا ہے اک منزل سر ہونے سے

غزل
فرق نہیں پڑتا ہم دیوانوں کے گھر میں ہونے سے
مظفر حنفی