دیواروں پر گیلی ریکھائیں روتی ہیں
تینوں پر گھنگھرو کی بوندیں ناچ رہی ہیں
پیروں میں مکڑی نے جالا تان رکھا ہے
پر پھیلا کر چڑیاں کاندھے پر بیٹھی ہیں
ڈول رہے ہیں آنکھوں میں پتھر کے سائے
شریانوں میں بہتی ندیاں سوکھ چکی ہیں
در پر ویرانی کا پردہ جھول رہا ہے
کھونٹی سے تنہائی کی بیلیں لٹکی ہیں
مجھ سے مت بولو میں آج بھرا بیٹھا ہوں
سگریٹ کے دونوں پیکٹ بالکل خالی ہیں
دشمن کیوں زحمت فرمائیں میری خاطر
خود کو مخلص کہنے والے ہی کافی ہیں
بچپن میں آکاش کو چھوتا سا لگتا تھا
اس پیپل کی شاخیں اب کتنی نیچی ہیں
زخموں کی چھلنی میں ان کو چھان رہا ہوں
کرنیں اپنے ساتھ اندھیرے بھی لائی ہیں
چلیے صاحب اور کوئی دروازہ دیکھیں
آج مظفرؔ کی باتیں بہکی بہکی ہیں
غزل
دیواروں پر گیلی ریکھائیں روتی ہیں
مظفر حنفی