یہ اضطراب دیکھنا یہ انتشار دیکھنا
سحر نہ ہو کہیں ذرا پس غبار دیکھنا
یہ خستگی کا فیض ہے کہ جس نے آنکھ موند کر
سکھا دیا مجھے بدن کے آرپار دیکھنا
شکست کھا چکے ہیں ہم مگر عزیز فاتحو
ہمارے قد سے کم نہ ہو فراز دار دیکھنا
گزر گئی جو موج اس کی یاد ہی فضول ہے
مگر ہو اس کا مڑ کے مجھ کو بار بار دیکھنا
مرا خلوص دیکھنا کہ محو انتظار ہوں
اسے بھلا چکا ہوں کیف انتظار دیکھنا
غزل
یہ اضطراب دیکھنا یہ انتشار دیکھنا
مظفر حنفی