شہر بھر میں کہیں رونق تھی نہ تابانی تھی
ہر طرف چھائی ہوئی گرد پریشانی تھی
جب سرابوں پہ قناعت کا سلیقہ آیا
ریت کو ہاتھ لگایا تو وہیں پانی تھی
سادہ لوحی مری رکھتی تھی توقع تجھ سے
مجھ سے امید لگائے تری نادانی تھی
کیا بتاؤں کہ اسے دیکھ کے حیراں کیوں ہوں
ایک آئینہ تھا آئینے میں حیرانی تھی
اب ندامت کے سمندر میں لگائیں غوطے
آرزوؤں نے کہاں بات مری مانی تھی
مختصر اس کو کیا ہے متبسم ہو کر
ورنہ روداد مرے درد کی طولانی تھی
اے مظفرؔ مجھے تا عمر رہی فکر سخن
جب کہ فرصت تھی میسر نہ تن آسانی تھی
غزل
شہر بھر میں کہیں رونق تھی نہ تابانی تھی
مظفر حنفی