EN हिंदी
معید رشیدی شیاری | شیح شیری

معید رشیدی شیر

14 شیر

آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا
میں خود کو دیکھتا رہا میں خود کو سوچتا رہا

معید رشیدی




اب اس سے پہلے کہ رسوائی اپنے گھر آتی
تمہارے شہر سے ہم با ادب نکل آئے

معید رشیدی




اے عقل نہیں آئیں گے باتوں میں تری ہم
نادان تھے نادان ہیں نادان رہیں گے

معید رشیدی




ایک ہنگامہ شب و روز بپا رہتا ہے
خانۂ دل میں نہاں جیسے خدا رہتا ہے

معید رشیدی




ہم ضبط کی تاریخ کے ہیں باب رشیدیؔ
ہم ضبط کی تاریخ میں پنہاں نہیں ہوتے

معید رشیدی




اسی جواب کے رستے سوال آتے ہیں
اسی سوال میں سارا جواب ٹھہرا ہے

معید رشیدی




خواب میں توڑتا رہتا ہوں انا کی زنجیر
آنکھ کھلتی ہے تو دیوار نکل آتی ہے

معید رشیدی




کوئی آتا ہے یا نہیں آتا
آج خود کو پکار کر دیکھیں

معید رشیدی




سلگتی دھوپ میں جل کر فقیر شب تری خاک
کیوں خانقاہ شب بے کراں میں بیٹھ گئی

معید رشیدی