فصیل شہر سے کیوں سب کے سب نکل آئے
ہمیں خبر نہ ہوئی جانے کب نکل آئے
قدم قدم پہ یہاں قہقہے بچھے ہوئے ہیں
یہ کیسے شہر میں ہم بے سبب نکل آئے
وہ روشنی میں نہایا ہوا تصور تھا
اندھیرا بڑھتا گیا دست شب نکل آئے
اب اس سے پہلے کہ رسوائی اپنے گھر آتی
تمہارے شہر سے ہم با ادب نکل آئے
پھر ایک لمحے کو ٹھہرا نہیں گیا ہم سے
ہمارے دل نے کہا اب، تو اب نکل آئے

غزل
فصیل شہر سے کیوں سب کے سب نکل آئے
معید رشیدی