EN हिंदी
آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا | شیح شیری
aankhon mein shab utar gai KHwabon ka silsila raha

غزل

آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا

معید رشیدی

;

آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا
میں خود کو دیکھتا رہا میں خود کو سوچتا رہا

خود کو پکارتا رہا، کوئی خبر نہیں ملی
کس کی خبر نہیں ملی، کس کو پکارتا رہا

اس کی تلاش ہی نہ تھی، اپنی تلاش بھی نہ تھی
کھونے کا خوف کچھ نہ تھا، پھر کیسا فاصلہ رہا

کچھ مسئلے تو گھر گئے، کچھ مسئلے بکھر گئے
سب مسئلے گزر گئے اور ایک مسئلہ رہا

وہ بھی بکھر بکھر گیا میں بھی ادھر ادھر گیا
وہ بھی دھواں دھواں سا کچھ میں بھی غبار سا رہا

لفظوں کی شاخیں پھیل کر میرے لہو سے آ ملیں
کچھ قہقہے اچھل گئے اور کوئی چیختا رہا