آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا
میں خود کو دیکھتا رہا میں خود کو سوچتا رہا
خود کو پکارتا رہا، کوئی خبر نہیں ملی
کس کی خبر نہیں ملی، کس کو پکارتا رہا
اس کی تلاش ہی نہ تھی، اپنی تلاش بھی نہ تھی
کھونے کا خوف کچھ نہ تھا، پھر کیسا فاصلہ رہا
کچھ مسئلے تو گھر گئے، کچھ مسئلے بکھر گئے
سب مسئلے گزر گئے اور ایک مسئلہ رہا
وہ بھی بکھر بکھر گیا میں بھی ادھر ادھر گیا
وہ بھی دھواں دھواں سا کچھ میں بھی غبار سا رہا
لفظوں کی شاخیں پھیل کر میرے لہو سے آ ملیں
کچھ قہقہے اچھل گئے اور کوئی چیختا رہا

غزل
آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا
معید رشیدی