EN हिंदी
معید رشیدی شیاری | شیح شیری

معید رشیدی شیر

14 شیر

تو مجھے زہر پلاتی ہے یہ تیرا شیوہ
اے مری رات تجھے خون پلایا میں نے

معید رشیدی




اس بار اجالوں نے مجھے گھیر لیا تھا
اس بار مری رات مرے ساتھ چلی ہے

معید رشیدی




وہ چاہتے ہیں کہ ہر بات مان لی جائے
اور ایک میں ہوں کہ ہر بات کاٹ دیتا ہوں

معید رشیدی




یہ ہجرتوں کے تماشے، یہ قرض رشتوں کے
میں خود کو جوڑتے رہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں

معید رشیدی




زندگی ہم ترے کوچے میں چلے آئے تو ہیں
تیرے کوچے کی ہوا ہم سے خفا لگتی ہے

معید رشیدی