EN हिंदी
آثار جنوں بے سروساماں نہیں ہوتے | شیح شیری
aasar-e-junun be-sar-o-saman nahin hote

غزل

آثار جنوں بے سروساماں نہیں ہوتے

معید رشیدی

;

آثار جنوں بے سروساماں نہیں ہوتے
ہم شہر تحیر میں پریشاں نہیں ہوتے

رستے میں طلسمات بچھی جاتی ہیں ہر دم
ہم خوئے سفر صورت حیراں نہیں ہوتے

ماضی کی طنابوں سے لگے درد کے خیمے
کیا جانیے کیوں دیدۂ امکاں نہیں ہوتے

خوابوں کی حویلی سے رواں شور مسلسل
آواز جرس کے لیے زنداں نہیں ہوتے

ہم ضبط کی تاریخ کے ہیں باب رشیدیؔ
ہم ضبط کی تاریخ میں پنہاں نہیں ہوتے