آثار جنوں بے سروساماں نہیں ہوتے
ہم شہر تحیر میں پریشاں نہیں ہوتے
رستے میں طلسمات بچھی جاتی ہیں ہر دم
ہم خوئے سفر صورت حیراں نہیں ہوتے
ماضی کی طنابوں سے لگے درد کے خیمے
کیا جانیے کیوں دیدۂ امکاں نہیں ہوتے
خوابوں کی حویلی سے رواں شور مسلسل
آواز جرس کے لیے زنداں نہیں ہوتے
ہم ضبط کی تاریخ کے ہیں باب رشیدیؔ
ہم ضبط کی تاریخ میں پنہاں نہیں ہوتے

غزل
آثار جنوں بے سروساماں نہیں ہوتے
معید رشیدی