EN हिंदी
مکاں سے دور کہیں لا مکاں میں بیٹھ گئی | شیح شیری
makan se dur kahin la-makan mein baiTh gai

غزل

مکاں سے دور کہیں لا مکاں میں بیٹھ گئی

معید رشیدی

;

مکاں سے دور کہیں لا مکاں میں بیٹھ گئی
بدن کی آگ طلسمات جاں میں بیٹھ گئی

سلگتی دھوپ میں جل کر فقیر شب تری خاک
کیوں خانقاہ شب بے کراں میں بیٹھ گئی

کیوں آج دل کے حرم میں نماز غم نہ ہوئی
کیوں ایک چپ سی صدائے اذاں میں بیٹھ گئی

ہماری صبح ہجوم بلا کی نذر ہوئی
ہماری شام بھی دشت گماں میں بیٹھ گئی

کسی کا جسم شکار نہنگ وقت خزاں
کسی کی سانس فضائے گراں میں بیٹھ گئی

کہیں سفر کی رسالت کہیں تھکن کی حدیث
یہ کشمکش بھی رشیدیؔ دھواں میں بیٹھ گئی