عشق میں لذت آزار نکل آتی ہے
اس بہانے سے شب تار نکل آتی ہے
ہم ترے شہر سے ملتے ہیں گزر جاتے ہیں
تجھ سے ملنے میں تو تلوار نکل آتی ہے
خواب میں توڑتا رہتا ہوں انا کی زنجیر
آنکھ کھلتی ہے تو دیوار نکل آتی ہے
جب بھی آتا ہے کوئی رنگ زمانے جیسا
کچھ نہ کچھ صورت انکار نکل آتی ہے
جب بھی کرتا ہوں خموشی کے حوالے خود کو
جانے کیا برسر پیکار نکل آتی ہے

غزل
عشق میں لذت آزار نکل آتی ہے
معید رشیدی