EN हिंदी
وہ جب بھی پکارے گا یہاں آن رہیں گے | شیح شیری
wo jab bhi pukarega yahan aan rahenge

غزل

وہ جب بھی پکارے گا یہاں آن رہیں گے

معید رشیدی

;

وہ جب بھی پکارے گا یہاں آن رہیں گے
ہم خاک نشیں بے سر و سامان رہیں گے

ہنگام جہاں تجھ میں پریشان رہیں گے
یا دشت طلسمات میں حیران رہیں گے

سایہ بھی یہاں دور ذرا ہم سے چلے گا
یہ شہر ہی ایسا ہے کہ انجان رہیں گے

اے عقل نہیں آئیں گے باتوں میں تری ہم
نادان تھے نادان ہیں نادان رہیں گے

سن خوئے طرب شہر نگاراں کی طرف جا
ہم اہل جنوں سوئے بیابان رہیں گے