درون ذات ہجوم عذاب ٹھہرا ہے
کہاں یہ سلسلۂ اضطراب ٹھہرا ہے
یہیں افق سے زمینیں سوال کرتی ہیں
کہاں خلاؤں میں چھپ کر جواب ٹھہرا ہے
بدن زمین میں آنکھیں اگائی ہیں ہم نے
بدن فلک پہ کوئی ماہتاب ٹھہرا ہے
اسی جواب کے رستے سوال آتے ہیں
اسی سوال میں سارا جواب ٹھہرا ہے
سیہ لباس میں ہم شب کے ماتمی ٹھہرے
سیاہ شب کی نحوست میں خواب ٹھہرا ہے

غزل
درون ذات ہجوم عذاب ٹھہرا ہے
معید رشیدی