EN हिंदी
مرزارضا برق ؔ شیاری | شیح شیری

مرزارضا برق ؔ شیر

22 شیر

انگڑائی دونوں ہاتھ اٹھا کر جو اس نے لی
پر لگ گئے پروں نے پری کو اڑا دیا

مرزارضا برق ؔ




اگر حیات ہے دیکھیں گے ایک دن دیدار
کہ ماہ عید بھی آخر ہے ان مہینوں میں

مرزارضا برق ؔ




اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

مرزارضا برق ؔ




اثر زلف کا برملا ہو گیا
بلاؤں سے مل کر بلا ہو گیا

مرزارضا برق ؔ




اذاں دی کعبہ میں ناقوس دیر میں پھونکا
کہاں کہاں تجھے عاشق ترا پکار آیا

مرزارضا برق ؔ




اذاں دی کعبہ میں ناقوس دیر میں پھونکا
کہاں کہاں تجھے عاشق ترا پکار آیا

مرزارضا برق ؔ




بعد فنا بھی ہے مرض عشق کا اثر
دیکھو کہ رنگ زرد ہے میرے غبار کا

مرزارضا برق ؔ




بے بلائے ہوئے جانا مجھے منظور نہیں
ان کا وہ طور نہیں میرا یہ دستور نہیں

مرزارضا برق ؔ




چھپ سکا دم بھر نہ راز دل فراق یار میں
وہ نہاں جس دم ہوا سب آشکارا ہو گیا

مرزارضا برق ؔ