EN हिंदी
چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا | شیح شیری
chand sa chehra jo us ka aashkara ho gaya

غزل

چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا

مرزارضا برق ؔ

;

چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا
تن پہ ہر قطرہ پسینہ کا شرارا ہو گیا

چھپ سکا دم بھر نہ راز دل فراق یار میں
وہ نہاں جس دم ہوا سب آشکارا ہو گیا

جس کو دیکھا چشم وحدت سے وہی معشوق ہے
پڑ گئی جس پر نظر اس کا نظارا ہو گیا

ہم کناری کی ہوس اے گوہر یکتا یہ ہے
آب ہو کر غم سے دل دریا ہمارا ہو گیا

خلق میں گرد یتیمی سے گہر کی قدر ہے
خاکساری سے فزوں رتبہ ہمارا ہو گیا

دل میں ہے اے برقؔ اس بت کے در دنداں کی یاد
یہ گہر عرش بریں کا گوشوارہ ہو گیا