گیا شباب نہ پیغام وصل یار آیا
جلا دو کاٹ کے اس نخل میں نہ بار آیا
قدم عدم میں یہ کہہ کر رکھوں گا اے قاتل
ہزار شکر کہ میں بار سر اتار آیا
مثال مہر وہ قاتل شعاع عارض سے
ہزار تیغ قضا کھینچے ایک بار آیا
اذاں دی کعبہ میں ناقوس دیر میں پھونکا
کہاں کہاں تجھے عاشق ترا پکار آیا
تری تلاش میں اے ماہ مثل ریگ رواں
نہ میری خاک کو بعد از فنا قرار آیا
پھنسا جو زلف میں چھوٹا وہ قید ہستی سے
رہا ہوا جو ترے دام میں شکار آیا
ہمیشہ دیکھ کے مجنوں کو خلق کہتی تھی
عدم سے برقؔ کی آمد ہے پیشکار آیا
غزل
گیا شباب نہ پیغام وصل یار آیا
مرزارضا برق ؔ