زیر زمیں ہوں تشنۂ دیدار یار کا
عالم وہی ہے آج تلک انتظار کا
گزرا شراب پینے سے لے کون درد سر
ساقی دماغ کس کو ہے رنج خمار کا
محشر کے روز بھی نہ کھلے گی ہماری آنکھ
صدمہ اٹھا چکے ہیں شب انتظار کا
عبرت کی جا ہے عالم دنیا نہ کر غرور
سر کاسۂ گدا ہے کسی تاجدار کا
بعد فنا بھی ہے مرض عشق کا اثر
دیکھو کہ رنگ زرد ہے میرے غبار کا
الفت نہ کچھ پری سے نہ کچھ حور سے ہے عشق
مشتاق برقؔ روز ازل سے ہے یار کا
غزل
زیر زمیں ہوں تشنۂ دیدار یار کا
مرزارضا برق ؔ