اگرچہ کہنے کو کل کائنات اپنی تھی
حقیقتاً کہاں اپنی بھی ذات اپنی تھی
مسعودہ حیات
ایک خوشبو سی ابھرتی ہے نفس سے میرے
ہو نہ ہو آج کوئی آن بسا ہے مجھ میں
مسعودہ حیات
گھر سے جو شخص بھی نکلے وہ سنبھل کر نکلے
جانے کس موڑ پہ کس ہاتھ میں خنجر نکلے
مسعودہ حیات
ہزار درد سمیٹے ہوئے ہوں اک دل میں
بکھر گئی جو مری داستاں تو کیا ہوگا
مسعودہ حیات
ہزار شوق نمایاں تھے جس نظر سے کبھی
وہی نگاہ بڑی اجنبی سی لگتی ہے
مسعودہ حیات
خوشبو سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
شیشہ کہیں ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
مسعودہ حیات
کس سے شکوہ کریں ویرانیٔ ہستی کا حیاتؔ
ہم نے خود اپنی تمناؤں کو جینے نہ دیا
مسعودہ حیات
کیا غرض ہم کو وہاں اب کوئی بھی آباد ہو
ہم تو اس بستی سے گھر اپنا اٹھا کر لے گئے
مسعودہ حیات
تمام عمر بھٹکتے رہے جو راہوں میں
دکھا رہے ہیں وہی آج راستا مجھ کو
مسعودہ حیات