گھر سے جو شخص بھی نکلے وہ سنبھل کر نکلے
جانے کس موڑ پہ کس ہاتھ میں خنجر نکلے
معجزہ بن گئی کیا آج مری تشنہ لبی
ایک قطرے کے تلے کتنے سمندر نکلے
گر گیا ہو جو فصیلوں کو اٹھا کر خود ہی
کیسے اب اپنے حصاروں سے وہ باہر نکلے
رہبرو تم نے تو منزل کا پتا بھی نہ دیا
تم سے بہتر تو مری راہ کے پتھر نکلے
عمر بھر ذہن میں چبھتا رہا اک نشتر غم
جتنے احساس تھے سب میرا مقدر نکلے
تم سے چھوڑی نہ گئی راہ وفا پھر بھی حیاتؔ
کتنے بے درد ملے کتنے ستم گر نکلے

غزل
گھر سے جو شخص بھی نکلے وہ سنبھل کر نکلے
مسعودہ حیات