دل و نگاہ میں اک روشنی سی لگتی ہے
تمہاری یاد سے وابستگی سی لگتی ہے
یہ کیا ستم ہے مہکتی ہوئی بہاروں میں
ہر ایک چہرے پہ پژمردگی سی لگتی ہے
یہ کس کے ہاتھ میں آیا ہے دور پیمانہ
لبوں پہ اپنے بڑی تشنگی سی لگتی ہے
ہم اپنے گھر میں بھی ہیں اب مسافروں کی طرح
ہر ایک چیز یہاں اجنبی سی لگتی ہے
ہر ایک سانس پہ پہرہ ہے ناخداؤں کا
یہ زندگی بھی کوئی زندگی سی لگتی ہے
ہزار شوق نمایاں تھے جس نظر سے کبھی
وہی نگاہ بڑی اجنبی سی لگتی ہے
حیاتؔ کون سی اب راہ اختیار کریں
ہر ایک راہ بڑی اجنبی سی لگتی ہے

غزل
دل و نگاہ میں اک روشنی سی لگتی ہے
مسعودہ حیات