EN हिंदी
خوشبو سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو | شیح شیری
KHushbu si koi aae to lagta hai ki tum ho

غزل

خوشبو سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو

مسعودہ حیات

;

خوشبو سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
شیشہ کہیں ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

احساس محبت سے کسی گوشۂ دل میں
جب چوٹ ابھر آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو

پر کیف ہوا میں جو کسی پیڑ کے نیچے
آنچل مرا لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

چھونے سے کبھی باد صبا کے مرے تن میں
اک برق سی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

سر رکھ کے جو پتھر پہ کبھی راہ الم میں
کچھ نیند سی آ جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

جب شام ملاقات پڑوسی کے مکاں سے
آواز کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو

جب شانہ بھی کرنے نہ اٹھے ہاتھ ہمارا
اور زلف سنور جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو