خوشبو سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
شیشہ کہیں ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
احساس محبت سے کسی گوشۂ دل میں
جب چوٹ ابھر آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
پر کیف ہوا میں جو کسی پیڑ کے نیچے
آنچل مرا لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
چھونے سے کبھی باد صبا کے مرے تن میں
اک برق سی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سر رکھ کے جو پتھر پہ کبھی راہ الم میں
کچھ نیند سی آ جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب شام ملاقات پڑوسی کے مکاں سے
آواز کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب شانہ بھی کرنے نہ اٹھے ہاتھ ہمارا
اور زلف سنور جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

غزل
خوشبو سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
مسعودہ حیات