اگرچہ کہنے کو کل کائنات اپنی تھی
حقیقتاً کہاں اپنی بھی ذات اپنی تھی
کہیں تو کس سے کہیں ہم حیات اپنی تھی
نہ کوئی دن تھا ہمارا نہ رات اپنی تھی
کوئی بھی آج تو اپنا نظر نہیں آتا
جو تم تھے اپنے تو کل کائنات اپنی تھی
یہ کیا کہ آج کوئی نام تک نہیں لیتا
وہ دن بھی تھے کہ ہر اک لب پہ بات اپنی تھی
ہمارے پاس رہا کیا ہے اب غموں کے سوا
وہ دن گئے کہ رہ شش جہات اپنی تھی
ہمیں سے بھول کہیں ہو گئی محبت میں
وگرنہ وہ نگہ التفات اپنی تھی
جو تم قریب تھے ہر شے پہ اختیار سا تھا
یہ چاند اور ستاروں کی رات اپنی تھی
ہمیں خود اپنی خرد کا غرور لے ڈوبا
نہیں تو ایک زمانے میں بات اپنی تھی
حیاتؔ اس لیے نظم کہن کو توڑ دیا
کہ آج صرف اسی میں نجات اپنی تھی

غزل
اگرچہ کہنے کو کل کائنات اپنی تھی
مسعودہ حیات