تیری یادوں نے کبھی چین سے جینے نہ دیا
میں نے چاہا تو مجھے زہر بھی پینے نہ دیا
یوں ہی بن بن کے بگڑتے رہے آئین وفا
بے سہاروں کو سہارا تو کسی نے نہ دیا
غم تو غم جوش مسرت نے بڑھایا وہ جنوں
چاک داماں کسی عنوان بھی سینے نہ دیا
زندگی غم سے سنورتی ہے یہ مانا لیکن
منزل غم میں سہارا تو کسی نے نہ دیا
آج کیوں آ گئے تم درد کا درماں بن کر
جام فرقت بھی مجھے چین سے پینے نہ دیا
تیرے ملنے کی خوشی تیرے بچھڑنے کا ملال
غمزۂ شام و سحر نے ہمیں جینے نہ دیا
کس سے شکوہ کریں ویرانیٔ ہستی کا حیاتؔ
ہم نے خود اپنی تمناؤں کو جینے نہ دیا

غزل
تیری یادوں نے کبھی چین سے جینے نہ دیا
مسعودہ حیات