EN हिंदी
دلوں سے اٹھنے لگے گا دھواں تو کیا ہوگا | شیح شیری
dilon se uThne lagega dhuan to kya hoga

غزل

دلوں سے اٹھنے لگے گا دھواں تو کیا ہوگا

مسعودہ حیات

;

دلوں سے اٹھنے لگے گا دھواں تو کیا ہوگا
بدل گیا کبھی رنگ جہاں تو کیا ہوگا

مچل گیا جو دل ناتواں تو کیا ہوگا
اٹھا نہ عشق کا بار گراں تو کیا ہوگا

ہمیں فریب محبت قبول ہے لیکن
جو کھل گئی کبھی دل کی زباں تو کیا ہوگا

ہم اہل دل ہیں کسی امتحاں سے کیا ڈرتے
لیا فلک نے ترا امتحاں تو کیا ہوگا

ہزار درد سمیٹے ہوئے ہوں اک دل میں
بکھر گئی جو مری داستاں تو کیا ہوگا

حیاتؔ کس کو دکھاؤں گی آبگینۂ دل
ملا نہ کوئی یہاں قدرداں تو کیا ہوگا