دلوں سے اٹھنے لگے گا دھواں تو کیا ہوگا
بدل گیا کبھی رنگ جہاں تو کیا ہوگا
مچل گیا جو دل ناتواں تو کیا ہوگا
اٹھا نہ عشق کا بار گراں تو کیا ہوگا
ہمیں فریب محبت قبول ہے لیکن
جو کھل گئی کبھی دل کی زباں تو کیا ہوگا
ہم اہل دل ہیں کسی امتحاں سے کیا ڈرتے
لیا فلک نے ترا امتحاں تو کیا ہوگا
ہزار درد سمیٹے ہوئے ہوں اک دل میں
بکھر گئی جو مری داستاں تو کیا ہوگا
حیاتؔ کس کو دکھاؤں گی آبگینۂ دل
ملا نہ کوئی یہاں قدرداں تو کیا ہوگا

غزل
دلوں سے اٹھنے لگے گا دھواں تو کیا ہوگا
مسعودہ حیات