آنکھوں سے محبت کے اشارے نکل آئے
برسات کے موسم میں ستارے نکل آئے
منصور عثمانی
اپنی تعریف سنی ہے تو یہ سچ بھی سن لے
تجھ سے اچھا ترا کردار نہیں ہو سکتا
منصور عثمانی
حالات کیا یہ تیرے بچھڑنے سے ہو گئے
لگتا ہے جیسے ہم کسی میلے میں کھو گئے
منصور عثمانی
ہم نے کچھ گیت لکھے ہیں جو سنانا ہیں تمہیں
تم کبھی بزم سجانا تو خبر کر دینا
منصور عثمانی
اس شہر میں چلتی ہے ہوا اور طرح کی
جرم اور طرح کے ہیں سزا اور طرح کی
منصور عثمانی
جس کو بچائے رکھنے میں اجداد بک گئے
ہم نے اسی حویلی کو نیلام کر دیا
منصور عثمانی
جو پھانس چبھ رہی ہے دلوں میں وہ تو نکال
جو پاؤں میں چبھی تھی اسے ہم نکال آئے
منصور عثمانی
خدا کے نام پہ کیا کیا فریب دیتے ہیں
زمانہ ساز یہ رہبر بھی میں بھی دنیا بھی
منصور عثمانی
خوشبو کا قافلہ یہ بہاروں کا سلسلہ
پہنچا ہے شہر تک تو مرے گھر بھی آئے گا
منصور عثمانی