آنکھوں سے محبت کے اشارے نکل آئے
برسات کے موسم میں ستارے نکل آئے
تھا تجھ سے بچھڑ جانے کا احساس مگر اب
جینے کے لئے اور سہارے نکل آئے
میں نے تو یونہی ذکر وفا چھیڑ دیا تھا
بے ساختہ کیوں اشک تمہارے نکل آئے
جب میں نے سفینے میں ترا نام لیا ہے
طوفان کی باہوں سے کنارے نکل آئے
ہم جاں تو بچا لاتے مگر اپنا مقدر
اس بھیڑ میں کچھ دوست ہمارے نکل آئے
جگنو انہیں سمجھا تھا مگر کیا کہوں منصورؔ
مٹھی کو جو کھولا تو شرارے نکل آئے
غزل
آنکھوں سے محبت کے اشارے نکل آئے
منصور عثمانی