EN हिंदी
اس شہر میں چلتی ہے ہوا اور طرح کی | شیح شیری
is shahr mein chalti hai hawa aur tarah ki

غزل

اس شہر میں چلتی ہے ہوا اور طرح کی

منصور عثمانی

;

اس شہر میں چلتی ہے ہوا اور طرح کی
جرم اور طرح کے ہیں سزا اور طرح کی

اس بار تو پیمانہ اٹھایا بھی نہیں تھا
اس بار تھی رندوں کی خطا اور طرح کی

ہم آنکھوں میں آنسو نہیں لاتے ہیں کہ ہم نے
پائی ہے وراثت میں ادا اور طرح کی

اس بات پہ ناراض تھا ساقی کہ سر بزم
کیوں آئی پیالوں سے صدا اور طرح کی

اس دور میں مفہوم محبت ہے تجارت
اس دور میں ہوتی ہے وفا اور طرح کی

شبنم کی جگہ آگ کی بارش ہو مگر ہم
منصورؔ نہ مانگیں گے دعا اور طرح کی