خود آپ اپنی زد میں ستم گر بھی آئے گا
تم منتظر رہو کہ یہ منظر بھی آئے گا
اس ریت کے نگر کو نہ گھبراؤ دیکھ کر
آگے بڑھو کہ ایک سمندر بھی آئے گا
خوشبو کا قافلہ یہ بہاروں کا سلسلہ
پہنچا ہے شہر تک تو مرے گھر بھی آئے گا
چلتے ہو میرے ساتھ تو اتنا بھی سوچ لو
راہوں میں میری غم کا سمندر بھی آئے گا
مقتل کو جا رہا ہوں یہ منصورؔ سوچ کر
چھینٹا کوئی لہو کا تو ان پر بھی آئے گا
غزل
خود آپ اپنی زد میں ستم گر بھی آئے گا
منصور عثمانی