از روز ازل ہے کہ نہیں ہے کا ہے محشر
اور اس کا جواب آج بھی ہاں بھی ہے نہیں بھی
منموہن تلخ
بارہا خود پہ میں حیران بہت ہوتا ہوں
کوئی ہے مجھ میں جو بالکل ہی جدا ہے مجھ سے
منموہن تلخ
دنیا میری زندگی کے دن کم کرتی جاتی ہے کیوں
خون پسینہ ایک کیا ہے یہ میری مزدوری ہے
منموہن تلخ
ہم کئی روز سے بے وجہ بہت خوش ہیں چلو
زندگی کی یہ ادائیں بھی تو دیکھی جائیں
منموہن تلخ
کسی کے ساتھ نہ ہونے کے دکھ بھی جھیلے ہیں
کسی کے ساتھ مگر اور بھی اکیلے ہیں
منموہن تلخ
کوئی جس بات سے خوش ہے تو خفا دوسرا ہے
کچھ بھی کہنے میں کسی سے یہی دشواری ہے
منموہن تلخ
میں خود میں گونجتا ہوں بن کے تیرا سناٹا
مجھے نہ دیکھ مری طرح بے زباں بن کر
منموہن تلخ
سب کے سو جانے پہ افلاک سے کیا کہتا ہے
رات کو ایک پرندے کی صدا سنتا ہوں
منموہن تلخ
شکایت اور تو کچھ بھی نہیں ان آنکھوں سے
ذرا سی بات پہ پانی بہت برستا ہے
منموہن تلخ