آئیں آنسو اگر آنکھوں میں تو بس پی جائیں
حال سب پوچھتے ہیں ہم نہ کہیں بھی جائیں
دیکھتے ہو جو کبھی محو سخن خود سے ہمیں
ہیں وہ باتیں بھی کہ خود سے جو فقط کی جائیں
ہم کئی روز سے بے وجہ بہت خوش ہیں چلو
زندگی کی یہ ادائیں بھی تو دیکھی جائیں
ہم تو یوں چپ ہیں کہ کیا بات کسی سے کی جائے
پھر بھی منہ سے کئی باتیں تو نکل ہی جائیں
راہ چلتے میں جسے دیکھتا ہوں لگتا ہے
جیسے بے وجہ سی آنکھیں ہیں کہ تکتی جائیں
کیا ملیں تلخؔ کسی سے کبھی آتے جاتے
گھر کی چوکھٹ پہ قدم رکھ کے پلٹ بھی جائیں
غزل
آئیں آنسو اگر آنکھوں میں تو بس پی جائیں
منموہن تلخ