EN हिंदी
محسوس جو ہوتا ہے کہ ہم ہیں بھی نہیں بھی | شیح شیری
mahsus jo hota hai ki hum hain bhi nahin bhi

غزل

محسوس جو ہوتا ہے کہ ہم ہیں بھی نہیں بھی

منموہن تلخ

;

محسوس جو ہوتا ہے کہ ہم ہیں بھی نہیں بھی
دیکھو تو جو ہم ایسے ہوں دو چار کہیں بھی

اوہام کے اسرار بھی کچھ کم نہیں گہرے
چکر میں بہت آئے ہیں کچھ اہل یقیں بھی

از روز ازل ہے کہ نہیں ہے کا ہے محشر
اور اس کا جواب آج بھی ہاں بھی ہے نہیں بھی

جو بات سمجھ لے وہ کہیں بھی نہ ملے گا
گھوم آؤ جدھر چاہو چلے جاؤ کہیں بھی

اقرار بھی انکار بھی پر تول رہا ہے
پرواز سے لرزاں ہے مری ہاں بھی نہیں بھی

آفاق جھکا آئے جہاں بیٹھے ہوں چپ چاپ
بس ہم سے بہت تنگ فلک بھی ہے زمیں بھی

تا حد نظر نقش قدم بھی نہیں ملتا
ہر سنگ سے ظاہر کوئی روداد جبیں بھی

جو نقش قدم وقت کے ہیں ریت پہ اے تلخؔ
کچھ ایسے فلک پر بھی ہیں کچھ زیر زمیں بھی