EN हिंदी
منموہن تلخ شیاری | شیح شیری

منموہن تلخ شیر

12 شیر

یہ اب گھروں میں نہ پانی نہ دھوپ ہے نہ جگہ
زمیں نے تلخؔ یہ شہروں کو بد دعا دی ہے

منموہن تلخ




یہ دل اب مجھ سے تھوڑی دیر سستانے کو کہتا ہے
اور آنکھیں موند کر ہر بات دہرانے کو کہتا ہے

منموہن تلخ




یہ تلخؔ کیا کیا ہے خود سے بھی گئے تم تو
مرنا ہی کسی پر تھا تم خود پہ مرے ہوتے

منموہن تلخ