میں ایک شام جو لوٹا غبار جاں بن کر
بکھر کے رہ گیا راہوں کی داستاں بن کر
میں خود میں گونجتا ہوں بن کے تیرا سناٹا
مجھے نہ دیکھ مری طرح بے زباں بن کر
میں اپنے آپ کا وہ شور تھا تجھے پا کر
تجھے ڈرا دیا آواز بے اماں بن کر
ہر ایک شخص ہے افواہ آپ ہی اپنی
ہر اک کو جانتا ہے ہر کوئی گماں بن کر
تمام سمتیں پلٹتی سی جان پڑتی ہیں
پہنچ رہا ہوں کہاں درد لا مکاں بن کر
یہ کس کو ڈھونڈ رہا ہوں میں ایک عرصے سے
خود اپنا ہی کوئی بھٹکا ہوا نشاں بن کر
جو خود تھے اپنی صدا کا یقیں وہی تو ہیں ہم
پہاڑ جیسے کوئی اڑ گیا دھواں بن کر
تو کر کے رد مجھے خود کو ذرا قبول تو کر
کھڑا ہوں تیرے لیے ایک امتحاں بن کر
خود اپنی بات کا دکھ بن کے رہ نہ جا اے تلخؔ
ہر ایک دل میں سما جا غم جہاں بن کر
غزل
میں ایک شام جو لوٹا غبار جاں بن کر
منموہن تلخ