EN हिंदी
کسی کے ساتھ نہ ہونے کے دکھ بھی جھیلے ہیں | شیح شیری
kisi ke sath na hone ke dukh bhi jhele hain

غزل

کسی کے ساتھ نہ ہونے کے دکھ بھی جھیلے ہیں

منموہن تلخ

;

کسی کے ساتھ نہ ہونے کے دکھ بھی جھیلے ہیں
کسی کے ساتھ مگر اور بھی اکیلے ہیں

اب اس کے بعد نہ جانے نصیب میں کیا ہے
نہ ساتھ آؤ ہمارے بہت جھمیلے ہیں

کہاں ہے یاد ملا کوئی کب تو کب بچھڑا
ہم اپنے دھیان سے اترے ہوئے سے میلے ہیں

کہو نہ مجھ سے کہ چلتے ہیں اب ملیں گے پھر
یہ کھیل وہ ہیں کہ صدیوں سے لوگ کھیلے ہیں

جو گھر میں جاؤں تو آواز تک نہیں کوئی
گلی میں آؤں تو ہر سو صدا کے ریلے ہیں

جو لوگ بھول بھلیاں ہیں تلخؔ اب اپنی
نہیں وہ صرف اکیلے بہت اکیلے ہیں